Sheikh Ahmed Sirhindi Mujaddid Alf Sani
(May Allah Have Mercy on Him)
Birth: 971 A.H, (1564 A.D.) Death: 1034 A.H, (1624
A.D.)
When Emperor Jahangir summoned him to his court, Prince
Khurram (later Emperor Shahjahan) sent word to him that there was no harm in
his prostration before the Emperor as a mark of respect for him.
But he replied that prostration was meant for Allah only,
and so refused to do so when he arrived at the Royal Court. At this Jahangir
was highly incensed and imprisoned him in Gwalior Fort, but released him after
two years, sought to sort his forgiveness, and presented to him a kingly robe and
other gifts.
Name: Sheikh Ahmed. Titles: Imam Rabbani and Mujaddid Alf
Sani. He was born in Sirhind (Punjab) during the reign of Emperor Akbar. He
completed the acquisition of esoteric knowledge by the age of 17.
Thereafter he turned his attention to esoteric knowledge and
acquired lieutenancy and permission to make disciples from the orders of Chistia,
Quadriaya, Naqshbandi, and others.
Amongst his spiritual guides was Khawaja Baqi-bil-Lah, a
profound saint, whose disciple he was in the Naqshbandiya order and from whom
he got his lieutenancy and permission to make his own disciples.
He was the revivalist and reformer of his age. Ministers
at the royal courts of Akbar and Jahangir were devoted to him.
He refused to do the prostration of respect at Jahangir
court and eradicated the wrong practices of his time. During his incarceration
in Gwalior Fort, he blessed thousands of prisoners with his teachings and
guidance.
In the field of mysticism, he introduced the doctrine of
"unity of experience" and, thus, rectified wrong concepts. Later on,
Allam Iqbal based his idea of self (Khudi) on his very doctrine.
He
brought about a revolution at the political level and Emperor Aurangzeb was the
culminating point of his striving. Sheikh Ahmed Sirhind revived the two-nation
theory based on Islam which made up for the harm done during Akbar's rule. His
Tomb shrine is in Sirhind (India).
شیخ احمد مجدّد الف ثانی (رحمتُہ الله علیہ)
ولادت: ٩٧١ھ مطابق: ١٥٦٤ء وصال: ١٠٣٤ھ مطابق: ١٦٢٤ء
شہنشاہِ ہند جہانگیر نے آپ کو دربار میں طلب کیا تو شہزادہ خرم (شاہجہاں) نے آپ سے کہلوایا کہ آپ سجدہً تعظیمی بجا لائیں تو کچھ نقصان نہ ہوگا۔ آپ نے فرمایا سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے۔
آپ نے فرمایا، سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے. جب آپ دربار میں حاضر ہوئے تو سجدہ نہیں کیا جس پر شہنشاہ جہانگیرکو طیش آگیا اور اس نے قلعہ گوالیار میں آپ کو نظر بند کر دیا۔ دو سال بعد رہا کیا، معافی طلب کی اور خلعت و نذرانہ پیش کیا۔
آپ کا نام شیخ احمد ہے، القاب، امامِ ربّانی اور مجدّدِ الف ثانی ہے۔ شہنشاہ اکبر کے عہد میں سرہند (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ 17 برس کی عمر میں علومِ منقولہ اور غیر منقولہ سے فارغ ہوئے، پھر باطنی علُوم کی توجہ کی اور چشتیہ، قادریہ اور نقشبندیہ وغیرہ سِلسلوں میں اجازت و خلافت حاصل کی. آپؒ کے مشائخ میں خواجہ باقیؒ باللہ ولئ کامل تھے، آپ سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت تھے اور آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی۔
آپؒ اپنے عہد کے مجّدد اور مصلح تھے، اکبری اور جہانگیری دربار کے وزراء آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپ نے جہانگیر کے دربار میں سجدہً تعظیمی سے انکار کیا اور اپنے دُور کے بِدعتوں کو ختم کیا۔ قلعہ گولیاں میں قید کے دوران ہزاروں قیدیوں کو رشُد وہدایت سرفراز کیا. تصوف میں تصّورِ وَحدت الشہوو کو روشناس کراکے غلط خیالات کی اصلاح کی. اِسی تصّور پر بعد میں علامہً اِقبال نے اپنے تصّورِ خُودی کی بنیاد رکھی۔
آپ نے سیاسی سطح پر ایک انقلاب برپا کیا اورنگزیب عالمگیر آپ کی کاوشوں کا نقطہ عرُوج تھا. وہ آپ کے صاحبزادے خواجہ مُحمّد معصُوم اور پوتے خواجہ سیفُ الدّین کا فیض یافتہ تھا۔ اور اس نے فقیرانہ انداز میں شہنشاہی کے تقاضے پورے کیے۔ شیخ احمد سرہندیؒ نے اسلام کی بنیاد پر دو قومی نظریہً کا احیاء کیا، جس نے دورِ اکبری میں ہونے والے نقصانات اور خرابیوں کی تلافی کی. آپ کا مزار مبارک سرہند میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
0 Comments